♨♨♨♨♨♨♨⭕امریکہ میں جب ایک قیدی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو وہاں کے کچھ سائنس دانوں نے سوچا کہ کیوں نا اس قیدی پر کچھ تجربہ کیا جاے. 
 تب قیدی کو بتایا گیا کہ ہم تمہیں پھانسی دے کر نہیں ماریں زہریلا کوبرا سانپ 🐍ڈسا کر ماریں گے..اور اس کے سامنے بڑا سا زہریلا کوبرا سانپ🐉 لے آنے کے بعد اس کی آنکھیں بند کرکے اس کو کرسی سے باندھ دیا گیا. اور اس کو سانپ نہیں بلکہ دو سیفٹی پِن چبھائی گئی... اور قیدی کی کچھ سیکنڈ میں ہی موت ہوگئی..پوسٹ مارٹم کے بعد پایا گیا کہ قیدی کے جسم میں🐍 سانپ کے زہر  جیسا ہی زہر ہے......اب یہ زہر کہاں سے آیا جس نے اس قیدی کی جان لے لی... وہ زہر اس کے جسم نے ہی صدمے میں جاری کیا تھا... ہمارے ہر عمل سے مثبت یا منفی توانائی بنتی ہے اور وہ ہمارے جسم میں اسی کے مطابق ہارمونس تیار کرتی ہے... 
75 فیصد بیماریوں کی وجہ منفی سوچ ہی ہوا کرتی ہے....آج انسان خود ہی اپنی منفی سوچ سے خود کو ختم کررہا ہے..اپنی سوچ ہمیشہ مثبت رکھیں اور سدا خوش رہیں..
25 سال کی عمر تک ہمیں یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ لوگ کیا سوچیں گے.. 50 سال کی عمر تک اسی ڈر میں جیتے ہیں کہ لوگ کیا سوچیں گے...
50 سال کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہمارے بارے میں کوئی سوچ ہی نہیں رہا تھا...... زندگی خوبصورت ہے... اس لیے ہمیشہ خوش رہو...                     🌼🌕🌼🌕🌼🌕🌼

پیاس لگی تھی غضب کی ...
مگر پانی میں زہر تھا ...

پیتے تو مر جاتے 
اور نہ پیتے تو بھی مر جاتے

بس یہی دو مسئلے، زندگی بھر نہ حل ہوئے !!!
نہ نیند پوری ہوئی، نہ خواب مکمل ہوئے !!!

وقت نے کہا ..... کاش تھوڑا سا صبر ہوتا !!!
صبر نے کہا .... کاش تھوڑا سا وقت ہوتا !!!

صبح صبح اٹھنا پڑتا ہے کمانے کے لئے صاحب .....
آرام کمانے نکلتا ہوں آرام چھوڑ کر ..

"ہنر" سڑکوں پر تماشا کرتا ہے اور "قسمت" محلات میں راج کرتی ہے !!

"شكايتیں تو بہت ہیں تجھ سے اے زندگی! 
پر خاموش اس لئے ہوں کہ جو دیا تو نے
 وہ بھی بہت سوں کو نصیب نہیں ہوتا "..

عجیب سوداگر ہے یہ وقت بھی !!!!
جوانی کا لالچ دے کے بچپن لے گیا ....

اب امیری کا لالچ دے کے جوانی لے جائیگا  ......

لوٹ آتا ہوں واپس گھر کی طرف ... ہر روز تھکا ہارا،

آج تک سمجھ نہیں آیا کہ جینے کے لئے کام کرتا ہوں یا کام کرنے کے لئے جیتا ہوں۔

"تھک گیا ہوں تیری نوکری سے اے زندگی
مناسب ہوگا میرا حساب کر دے ... !! "

بھری جیب نے 'دنیا' کی پہچان کروائی اور خالی جیب نے 'اپنوں' کی۔

جب لگے پیسہ کمانے تو سمجھ آیا،
شوق تو ماں باپ کے پیسوں سے پورے ہوتے تھے،
اپنے پیسوں سے تو صرف ضروریات پوری ہوتی ہیں ... !!!

ہنسنے کی خواہش نہ ہو ...
تو بھی ہنسنا پڑتا ہے ...
.
کوئی جب پوچھے کیسے ہو ... ؟؟
تو "مزے میں ہوں" کہنا پڑتا ہے ...
.

یہ زندگی کا تھیٹر ہے دوستو !  ....
یہاں ہر ایک کو ڈرامہ کرنا پڑتا ہے

"ماچس کی ضرورت یہاں نہیں پڑتی ...
یہاں آدمی آدمی سے جلتا ہے ... !! "

طاحر احمد کی کتاب

مرھوم تمنا سے اکتاباس

ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﺗﮭﮯ . ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺑﮑﺮﺍ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﺗﮭﺎ . ﺑﯿﻨﮏ ﺳﮯ ﭘﯿﻨﭧ ﮐﻮﭦ ﭘﮩﻨﮯ ﭨﺎﺋﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻨﮉﯼ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ . 
.
ﮔﺎﮌﯼ ﭘﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮉﯼ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ . ﺳﮍﮎ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺍﯾﮏ ﮐﻠﻮ ﻣﯿﭩﺮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺗﮭﮯ .
.
ﺟﮩﺎﮞ ﮔﺎﮌﯼ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ . ﺟﻮ ﺑﮑﺮﺍ ﮐﭼﮫ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺍﻡ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﯽ ﺣﺪ ﮐﻮ ﻋﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ . 
.
ﺩﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺪ ﺗﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﺑﮑﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﮐﻢ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺟﺴﺎﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﻠﮯ ﮨﻮﮞ .
ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮑﺮﺍ ﭘﯿﻨﺘﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻧﮧ ﻣﻼ
. ﺍﺑﮭﯽ ﻣﻨﮉﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ ﻭﺍﻟﯽ ﻗﻄﺎﺭ ﺁﺩﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ . ﺑﯿﻨﮏ ﺳﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭩﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ 
.
، ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎﻡ ﮐﻮ ﺁﺝ ﻧﻤﭩﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ . ﺑﮭﻮﮎ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﮑﺎﻥ ﻣﭩﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﯾﮍﮬﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﮑﺌﯽ ﮐﮯ ﺳﭩﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ . ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﮯ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺍﻡ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ . 
.
ﺍﯾﮏ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺍﻡ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﮨﺰﺍﺭ ﺑﻮﻻ . ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺭﮐﮯ ، ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﺋﻨﮧ ﮐﯿﺎ ، ﺑﮑﺮﺍ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﺗﮭﺎ . ﺩﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺗﮭﮯ 
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﻤﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟ ﺑﻮ ﻻ ﻧﮩﯿﮟ . ﮐﭽﮫ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﺍ ﻟﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ .
.
ﺍﺏ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﭽﮯ ﮔﺎ .... ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ، ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﮨﮯ ... ﺑﺲ ﺍﺱ ﮔﺪﮬﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺑﮑﺮﺍ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ
.
.. ﯾﮩﺎﮞ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮔﺪﮬﺎ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ .
.
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﺧﺮﯾﺪ ﺩﻭ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮑﺮﺍ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ... ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﺎ ﭘﮭﺮ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎ ﭨﮭﮑﺎﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﺎ .... ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮔﺪﮬﺎ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
.
. ﺑﺎﺕ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ... ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﮔﺪﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﮨﭩﺎ ﮐﭩﺎ ﺑﮑﺮﺍ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ.
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮯ ، ﺭﺳﯽ ﺗﮭﺎﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮑﺮﮮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﺩﯾﮯ.
.
ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺁﮔﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﮮ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ، ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻣﮍﮮ ﺗﻮ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﺋﺐ
. ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﺪﮬﺎ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﺗﮭﮯ ، ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮔﮭﻮﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ، ﻭﮦ ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ....... ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ... ﮔﺪﮬﺎ ﮔﮭﺮ ﻟﯿﺠﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭ ﺗﮭﺎ . ﻭﮨﺎﮞ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﻮ ﭼﻮﻧﺎ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﺋﮯ .
. ﺩﮬﻮﮐﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮨﯿﮟ ... ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﯿﺪ ﭘﺮ ﮔﺪﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ .. ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ 
. ﺍﮔﺮ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺑﮑﺮﺍ ، ﺑﮑﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ
 طاحر احمد
کی کتاب مرحوم تمنآ

شدید بارش کے سبب ٹیکسی لینا ہی بہتر تھا، چنانچہ میں نے ایک ٹیکسی کو اشارہ کیا۔۔۔!
"ماڈل کالونی چلو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جی بالکل حضور۔۔۔!"
"کتنے پیسے لو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جو دل کرے دے دینا سرجی۔۔۔۔!"
"پھر بھی۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر! ایک بات کہوں برا مت ماننا۔ میں ایک جاہل آدمی ہوں۔ پر اتنا جانتا ہوں کہ جو الله نے میرے نام کا آپکی جیب میں ڈال دیا ہے، وہ آپ رکھ نہیں سکتے اور اس سے زیادہ دے نہیں سکتے، توکل اسی کا نام ہے۔۔۔!"
اس ٹیکسی والے کی بات میں وہ ایمان تھا جس سے ہم اکثر محروم رہتے ہیں۔
خیر میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا، ابھی ہم تھوڑا ہی آگے گئے تھے کہ مسجد دکھائی دی۔
ٹیکسی والا: "سر جی! نماز پڑھ لیں پھر آگے چلتے ہیں، کیا خیال ہے۔۔۔؟" اس نے ٹیکسی مسجد کی طرف موڑ لی۔
ٹیکسی والا: "آپ نماز ادا کریں گے۔۔۔؟"
"کس مسلک کی مسجد ہے یہ۔۔۔؟"
میرا سوال سن کر اس نے میری طرف غور سے دیکھا، "باؤ جی! مسلک سے کیا لینا دینا، اصل بات سجدے کی ہے، الله کے سامنے جھکنے کی ہے۔ یہ الله کا گھر سب کا ہے۔۔۔!"
میرے پاس کوئی عذر باقی نہیں تھا۔ نماز سے فارغ ہوئے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔
"سر جی! آپ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔۔۔؟"
"کبھی پڑھ لیتا ہوں، کبھی غفلت ہو جاتی ہے۔۔۔!" یہی سچ تھا۔
ٹیکسی والا: "سر جی! جب غفلت ہوتی ہے تو کیا یہ احساس ہوتا ہے کہ غفلت ہو گئی اور نہیں ہونی چائیے تھی۔۔۔؟ معاف کرنا، میں آپکی ذات پر سوال نہیں کر رہا۔ لیکن اگر احساس ہوتا ہے تو الله ایک دن آپ کو ضرور نمازی بنا دے گا، اور اگر احساس نہیں ہوتا تو----!!"
اُس نے دانستہ طور پر جملہ ادھورا چھوڑ دی اور خاموش ہو گیا- اسکی خاموشی مجھے کاٹنے لگی۔
"تو کیا۔۔۔؟" میرا لہجہ بدل گیا۔
ٹیکسی والا: "اگر آپ ناراض نہ ہوں تو کہوں۔۔۔؟"
"ہاں بولیں۔۔۔!ً"
ٹیکسی والا: "اگر غفلت کا احساس نہیں ہو رہا تو آپ اپنی آمدن کے وسائل پر غور کریں، اور اپنے الله سے معافی مانگیں، کہیں نہ کہیں ضرور الله آپ سے ناراض ہے۔۔۔!"
ہم منزل پہ آ چکے تھے۔ میں نے اسکے توکل کا امتحان لینے کیلئے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔ اس نے بسم الله کہا اور نوٹ جیب میں رکھ کر کار موڑنے لگا۔
میں نے آواز دی، وہ رک گیا۔
ٹیکسی والا: "حکم سر جی۔۔۔؟"
"تم ان پیسوں میں خوش ہو۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر جی! مشکل سے بیس روپے کا پٹرول جلا ہو گا۔ الله نے اس خراب موسم میں بھی میرے بچوں کی روٹی کا انتظام کر دیا ہے۔۔۔!"
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے جیب سے مزید دو سو نکالے اور اسے دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
وہ مسکراتے ہوئے بولا، " سر جی! دیکھا آپ نے، میرا حق پچاس روپے تھا، اور الله کے توکل نے مجھے دو سو دیا۔۔۔!"
وہ ٹیکسی والا تو چلا گیا، لیکن جاتے جاتے اللہ پر میرے ایمان اور توکل کو جھنجھوڑ گیا.

یہ پوسٹ صرف معلومات کے لیے ہے

یہ گواہی قائدِ اعظم سے مل گئ کہ پاکستان 15اگست 1947 کو جمعہ کے روز وجود میں آیا اور اور ثبوت قائدِ اعظم کے اخبار ’’ڈان‘‘ نے فراہم کردیا کہ جمعہ 15 اگست کو 27 رمضان تھی
ڈان کے 15 اگست 1947 کے شمارے پر 27 رمضان المبارک بھی دیکھا جا سکتا ہے

گڑبڑ یہ ہوئی کہ ہمارے بزرگوں نے پڑوسی پر سبقت کیلئے یومِ آزادی ایک دن پہلے 14 اگست کو منانے کا فیصلہ تو کرلیا لیکن جمعہ اور 27 رمضان سے وابستہ تقدس سے دستبردار نہیں ہوئے۔

قائدِ اعظم نے 15 اگست 1947 کو ریڈیو سے قوم کے نام پیغام میں کہا تھا August 15 is the 

بعد میں انہوں نے کہاbirthday of the independent and sovereign state of Pakistan
Today is Jummat-ul-Wida, last Friday of holy month of Ramazan,a day of rejoicing for all of us
قائدِ اعظم نےفروری 1948 میں امریکی عوام سے ریڈیو خطاب میں کہا
This Dominion which represente the fulfilment, in a certain measure, of the cherished goal of 1000 million Muslims of this sub-continent came into existence on August 15, 1947.

پاکستان کا یوم آزادی 15اگست سے 14 اگست کرنےکا 
فیصلہ کب اور کیسے ہوا، یہ ہمارے محقق دوست عقیل عباس جعفری بتاتے ہیں۔۔۔

’’ یہ معمہ نیشنل ڈاکیومینٹیشن سینٹر، کیبنٹ ڈویژن،اسلام آباد میں محفوظ ان فائلوں سے حل ہوا جو ایک طویل عرصے تک خفیہ رہنے کے بعد اب عوام لیے کھول دی گئی ہیں۔ان فائلوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ منگل 29 جون 1948ءکو کراچی میں وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی زیر صدارت منعقد ہونے والے کابینہ کے ایک اجلاس میں، جس میں وزیر خارجہ، وزیر مواصلات، قانون و محنت، وزیر مہاجرین و آباد کاری، وزیر خوراک ،زراعت و صحت اور وزیر داخلہ ، اطلاعات و نشریات موجود تھے، فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے پہلے یوم آزادی کی تقریبات 15 اگست 1948 ء کی بجائے 14 اگست 1948ءکو منائی جائیں۔ وزیراعظم لیاقت علی نے کابینہ کو بتایا کہ یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے، وہ یہ معاملہ قائداعظم محمد علی جناح کے علم میں لائیں گے اور جو بھی حتمی فیصلہ ہوگا قائداعظم کی منظوری کے بعد ہوگا۔

اس فائل میں یہ تحریر نہیں کہ اس تجویز کا محرک کون تھا اور یوم آزادی کی تقریبات 15 کی بجائے 14 اگست کو منائے جانے کے حق میں کیا دلائل پیش کیے گئے تھے۔ کارروائی کے آخر میں بریکٹ میں تحریر ہے:
Quaid-i-Azam has approved the suggestion.
قائداعظم نے تجویز کو منظور کرلیا ۔
اس کے بعد پاکستان کا یوم آزادی ہر سال 14 اگست ہی کو منایا جاتا رہا
اب آتے ہیں ڈاک ٹکٹوں کی طرف
عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے ’’ 1948 کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کے محکمہ ڈاک نے پاکستان کے ابتدائی ڈاک ٹکٹوں کی ڈیزائننگ اور طباعت کے کام کا آغاز کیا۔ یہ چار ڈاک ٹکٹوں کا سیٹ تھا جن کے ابتدائی تین ڈاک ٹکٹ ایکسٹرنل پبلسٹی ڈپارٹمنٹ کے مصوروں رشید الدین اور محمد لطیف نے مشترکہ طور پر ڈیزائن کیے تھے جبکہ چوتھا ڈاک ٹکٹ اور اس کے ساتھ شائع ہونے والا فولڈر ملک کے عظیم مصور عبدالرحمنٰ چغتائی کی تخلیق تھا۔ یہ ڈاک ٹکٹ برطانیہ کے طباعتی ادارے میسرزٹامس ڈی لارو میں طبع ہوئے تھے۔ یہ ڈاک ٹکٹ 9 جولائی 1948ءکو فروخت کے لیے پیش کیے گئے اور ان پر پاکستان کے یوم آزادی کی اصل تاریخ 15اگست 1947ءشائع کی گئی تھی۔
گویا 9 جولائی 1948ءتک یہ بات طے تھی کہ پاکستان 15 اگست 1947ءکو آزاد ہوا تھا۔‘‘

بیالوجی کے ماہرین کہتے ہیں کہ موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی ایک جاندار کے جسم میں موجود 30 ٹریلیّن خُلیے Dead ہونا شروع ہو جاتے ہیں- اور ہر مُردہ خُلئے پر ایک "بیکٹیریا" مسلّط ہو جاتا ہے- اس مقصد کےلئے انسانی آنت میں 37 ٹریلیّن بیکٹیریاز ہر وقت موجود ہوتے ہیں- اس عمل کو "ڈی کمپوزیشن" کہا جاتا ہے- 
یہ بیکٹیریاز مردہ سیل کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں اور کاربوہائیڈریٹس ، لیپڈ اور پروٹین کو بدبو آور گیسز میں تبدیل کرنے لگتے ہیں- یہ بدبو مکھیوں اور دوسرے حشرات الارض کےلئے اشتہاء کا باعث بنتی ہے- چنانچہ یہ قدرتی فوج مل جل کر چند ہی روز میں مردہ جسم کو صفحہء ہستی سے مٹا دیتی ہے- بچی کھچی ہڈیاں بھی وقت کے ساتھ ساتھ مٹی بن جاتی ہیں-
یہ وہی جسم ہے جسے صبح سے شام تک سنوارا جاتا ہے- کھلایا پلایا جاتا ہے-
جو چیز باقی بچتی ہے ، اور جس تک کسی بیکٹیریا و حشرات کی پہنچ نہیں ، وہ روح ہے-
یہ وہی روح ہے جسے صبح سے شام تک تڑپایا جاتا ہے- اور بھوکا رکھا جاتا ہے ۔👌 ایک بھترین میسج!👌

سوچا کیوں نہ اپنوں کو بھی اس میں شامل کر لوں.

👀 فٹبال  میچ: ۹۰ منٹ، 
 👀 کرکٹ : دن بھر

👀 فلم:  ۱۳۰ منٹ

👀ڈرامہ: 60 منٹ

🍃نماز:  5 یا 10 منٹ

جہنم:  زندگی بھر.. 🔥

جنت:  زندگی بھر.. 🌺

✋اہل عقل و دانش کیلئے سوچنے کا مقام

👈وٹس ایپ پر  ۳۰۰ دوست

موبائل:  ۲۰۰

علاقے:  ۵۰

👋مشکل کے وقت(۱)

💦جنازے میں (رشتدار)

قبر  (اکیلا) 

تعجب نہ کریں زندگی اسی کا نام ہے.

🙌حقیقت یہی ہے آپ کو آپ کی  صحیح عبادت ہی کام آئے گی.

مجھے اگر اپنےگھر میں رکھے  قرآنی نسخہ پر دھول نظر آئے تو مجھے اپنے آپ پر رونا چاہیے.

👈دنیا بڑی عجیب ہے

جنازے پر جنازہ

وفات پر وفات

بجلی کڑکنے کی طرح موت کی خبریں

فلان ایکسیڈنٹ کی موت

فلان بیماری سے

فلاں چلتے چلتے چل بسا

👈سب کو مٹی تلے دفنایا 

یقینا میرا اور آپکا دن بھی آنے والا ہے.
👌 اس سفر کی تیاری کرو جس میں واپسی نہیں.

👈 محترم دوست:  توبہ کو چھوٹی عمر کے بہانے مؤخر نہ کرو.

👈معاف کرنا قبروں پر کہیں یہ بورڈ نہیں لگا ہے.

👈( صرف بڑوں کیلئے )👉

🌹دنیا تین دن کی ہے🌹

کل:  جو کبھی واپس نہیں آئے گا

آج:  جو ہم جی رہے ہیں وہ ہمیشہ نهيں رہے گا.

آئندہ کل:  ہم نہیں جانتے کہاں ہونگے.

✅ معاف کرتے جاؤ
✅خیرات کرتے جاؤ

🔔میں ..... آپ ..... وہ.... 
 سب جانے والے ہیں.

اے اللہ ہمیں خاتمہ بالخیر نصیب فرما.

👌 : جو جیسی زندگی گزارتا ہے اسی پر مرتا ہے

جو جس حالت میں مرتا اسی پر اٹھایا جائے گا.

میرا اور آپکا انتخاب کیا ہے؟

 🌹قابل غور باتيں🌹

سڑکیں: جام

بازار:  بھیڑ ہی بھیڑ

بینک:  لائن پر لائن

یونیورسٹیاں:  سیٹیں فل

پلے گراؤنڈ:  کھچا کھچ بھرے

مطاعم: بھیڑ ہی بهیڑ
پر افسوس 
👈مساجد:  خالی👉

یا رب رحم فرما' ..
 یا رب اصلاح کی توفیق دے.

🌹جب 💐 اچھا لگے تو آگے سینڈ کریں کیونکہ اللہ فرماتا ہے نصحیت کرو وہ مومنوں کو فائدہ پہونچاتی ہے 🌿

جزاک اللہ

ﺍﯾﮏ ﻣﻔﻠﺲ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺘﺎ
 "ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﯾﺪﮮ "
 ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮔﯿﺲ ﻭﺍﻟﮯ ﻏﺒﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ ﺍﮌﺍ ﺩﯾﺘﺎ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻭﺍﻗﻊ ﺗﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭘُﻠﺴﯿﺌﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻏﺒﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻨﺪﯾﺴﮯ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﻣﺤﻈﻮﻅ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ، ﭼﻠﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺳﺎﺭﮮ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺑﻤﺸﮑﻞ ﭘﭽﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﮨﯽ ﺟﻤﻊ ﮐﺮ ﭘﺎﺋﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ؛
 ﯾﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﯿﺮﺍ ﺭﺯﻕ ﭘﭽﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺠﮭﮯ ﭘﮩﭽﺎﻧﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺱ ﻏﺮﯾﺐ ﻧﮯ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﺎ ﮐﮩﺎ، ﺷﮑﺮﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺌﮯ۔
ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﺮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﻟﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﯿﺲ ﻭﺍﻟﮯ ﻏﺒﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ ﺍﮌﺍ ﺩﯾﺎ۔ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ، ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﮐﺎﻏﺬ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ :
ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮩﺖ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﺟﻮ ﺗﻮﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻦ ﻟﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺗﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮯ ﻏﯿﺮﺕ ﮨﯿﮟ، ﺁﺩﮬﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺑﺎ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮے...😜

FOUND IT WORTH READING, SO SHARING !!!!
مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے "

" برونی وئیر "(Bronnie Ware) ایک آسٹریلین نرس تھی۔ مگر اس کا کام عام نرسوں جیسا نہیں تھا۔
وہ ایک ایسے کلینک میں کام کرتی رہی جہاں ایسے مریض لائے جاتے تھے جو زندگی کی بازی ہار رہے ہوتے تھے۔
ان کی سانسیں چندہفتوں کی مہمان ہوتی تھیں۔ مریضوں میں ہرعمر اور ہر مرض کے لوگ ہوتے تھے۔

ان میں صرف ایک چیز یکساں ہوتی کہ وہ صرف چندہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔ زندگی کی ڈورٹوٹنے والی ہوتی تھی۔ برونی نے محسوس کیاکہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتا تھا۔

کلینک میں موجود دوسرے ڈاکٹروں اور دیگر نرسوں نے ان چند دنوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالک تھی۔
اس نے محسوس کیا کہ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ وہ اب اس دنیا سے جانے والا ہے تو غیر معمولی حد تک سچ بولنے لگتا ہے۔
اپنے گزرے ہوئے وقت پر نظر ڈال کرنتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے‘ اپنی تمام عمر کے المیے، خوشیاں اورنچوڑ سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔
برونی نے محسوس کیا، کہ موت کی وادی کے سفر پر روانگی سے چنددن پہلے انسان مکمل طور پر تنہا ہوجاتا ہے۔
خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلا شخص لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی رشتہ دار، کوئی عزیز اور کوئی ہمدرد۔
برونی نے فیصلہ کیا کہ زندگی سے اگلے سفر پر جانے والے تمام لوگوں کی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں، غم، دکھ، تکلیف اورمسائل سب کچھ غورسے سن کرمحفوظ کرلے گی۔ چنانچہ برونی نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کو کمپیوٹر پرایک" بلاگ (Blog) " کی شکل میں مرتب کرناشروع کر دیا۔

اس کے بلاگ کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی۔ لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں نے پوری دنیاسے ان کی لکھی ہوئی باتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ برونی کے خواب وخیال میں نہیں تھا کہ اس کے اور مریضوں کے تاثرات کو اتنی پذیرائی ملے گی۔

اس نے ایک اور بڑا کام کر ڈالا۔

یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔
اس کتاب کانام
” مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے”

The top five regrets of Dying
تھا۔
برونی کی تصنیف شدہ کتاب مقبولیت کی بلندترین سطح کوچھونے لگی۔
حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔ وہ ایک جیسے ذہنی پُل صراط سے گزررہے تھے۔ یہ پانچ پچھتاوے کیا تھے!

دنیا چھوڑنے سے پہلے ایک بات سب نے کہی۔ اس سے کوئی بھی مستثناء نہیں تھا۔ ہرایک کی زبان پر تھا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زندگی کو اپنی طرح سے جیتا۔ پوری زندگی کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسر کرتا رہا۔

برونی کواندازہ ہوا کہ ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں۔ مگر وہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈور ارد گرد کے واقعات، حادثات اور لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتاہے۔ وہ زندگی میں خود فیصلے کر ہی نہیں پاتا۔ یہ تمام لوگوں کا پہلا اور یکساں پچھتاوا تھا۔

دوسری بات جو خصوصاً مرد حضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثرحالات میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کی ذمے داری مرد کی ہوتی ہے۔ یہ کہ انھوں نے اپنے کام یا کاروبار پر اتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔ وقت کی قلت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔ کام اور روزگار کے غم نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیا جس میں دراصل انھیں کافی ٹائم اپنے بچوں اور اہل خانہ کو دینا چاہیے تھا۔
ساری محنت جن لوگوں کے لیے کر رہے تھے، کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دورکر دیا۔ کام ان کے لیے پھانسی کا پھندا بن گیاجس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی، مگر ان کو اپنے نزدیک ترین رشتوں کے لیے اجنبی بنادیا۔
برونی نے اپنے اکثر مریضوں کو یہ کہتے سنا کہ انھیں اپنی زندگی میں اتناکام نہیں کرنا چاہیے تھاکہ رشتوں کی دنیا میں اکیلے رہ جائیں۔ یہ دوسرا احساس زیاں تھا۔

تیسری بات بھی انتہائی اہم تھی۔
اکثر لوگوں نے خودسے گلہ کیا کہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اورجذبات سے دوسروں کو آگاہ کر پاتے۔
بیشتر لوگ صرف اس لیے اپنے اصل جذبات کا اظہار نہ کر پائے کہ دوسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے یا دوسروں کا خیال رکھنا چاہتے تھے۔
مگراس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔ ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندر قید رہ گئیں ۔ کئی افراد کے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمر کڑھتے رہے۔ انھیں ہونے والے نقصان کاعلم اس وقت ہوا جب بیمار پڑ گے اور کسی قابل نہ رہے۔

چوتھا غم بھی بڑا فکر انگیز تھا۔

اکثر لوگ اس افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔ نوکری، کام، روزگار یا کاروبار میں اتنے مصروف ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دور ہوتے گئے۔
ان کو اس زیاں کا احساس تک نہ ہوا۔ اپنے اچھے دوستوں کو وقت نہ دے پائے جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔ کشمکشِ زندگی نے انھیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دور کردیا کہ سب عملی طور پر اجنبی سے بن گئے۔
سالہاسال کے بعد ملاقات اور وہ بھی ادھوری سی۔
برونی نے محسوس کیاکہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔ عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجود نہیں تھے۔
اکثر مریض برونی کو اپنے پرانے دوستوں کے نام بتاتے تھے۔ ان تمام خوشگوار اور غمگین لمحوں کو دہراتے تھے جو وقت کی گرد میں کہیں گم ہوچکے تھے۔ اپنے دوستوں کی حِس مزاح، عادات اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔

برونی تمام مریضوں کو جھوٹا دلاسہ دیتی رہتی تھی کہ وہ فکر نہ کریں، ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔
مگر حقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں تھا۔ زندگی میں بھی اور آخری سانسوں میں بھی!

پانچویں اور آخری بات بہت متاثر کن تھی۔ تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ذاتی طورپرخوش رکھنے کے لیے کوئی محنت نہیں کی۔
اکثریت نے دوسروں کی خوشی کواپنی خوشی جان لیا۔ اپنی خوشی کو جاننے اور پہچاننے کا عمل شروع ہی نہیں کیا۔
اکثر لوگوں نے اپنی خوشی کو قربان کرڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔ وہ لوگوں کو ظاہری طور پر متاثر کرتے رہے کہ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔

دراصل انھوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیے۔ وہ یکسانیت کا شکار ہوگئے۔ تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثر دیا
کہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے اندرہنسی اور قہقہوں کو مصلوب کردیا۔ تمام خوبصورت اور بھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔

عمر کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی اور غیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھا لیا، کہ ہنسنا بھول گئے۔ اپنے قہقہوں کی بھر پور آواز سنی ہی نہیں۔ اپنے اندر گھٹ گھٹ کر جیتے رہے مگر اپنی خوشی کی پروا نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہد بھی ترک کر ڈالی۔
نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزار کر سفر عدم پر روانہ ہوگئے۔
برونی کی تمام باتیں میرے ذہن پر نقش ہو چکی ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ آپ تمام لوگ انتہائی ذہین ہیں۔ آپ سب کی زندگی میں یہ پانچ غم بالکل نہیں ہوں گے۔ آپ ہرطرح سے ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزار رہے ہوں گے۔ اپنے بچوں اور خاندان کو وقت دیتے ہوں گے۔ اپنے جذبات کو اپنے اندرابلنے نہیں دیتے ہوں گے۔

پرانے دوستوں کے ساتھ خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔ اپنی ذات کی خوشی کو بھرپور اہمیت دیتے ہوں گے۔

مگر مجھے ایسے لگتاہے کہ ہم تمام لوگ ان پانچوں المیوں میں سے کسی نہ کسی کاشکار ضرور ہیں۔

بات صرف اورصرف ادراک اور سچ ماننے کی ہے۔
اس کے باوجود میری دعاہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں پانچ تو درکنار، ایک بھی پچھتاوا نہ ہو۔

مگر . . .

شائد میں غلط کہہ رہا ہوں.......؟

صرف قرآن سے دم کرنے پر مطمئن نہ ہوں.... اس کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے.

ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺧﺎﻟﺪ ﻓﻮﺯﯼ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ہیں
ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﻣﻨﺪﺭﺟﮧ ذﯾﻞ ﺁﯾﺖ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﭘﮭﻮﻧﮑﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ
ﻓَﺎﻧﻜِﺤُﻮﺍْ ﻣَﺎ ﻃَﺎﺏَ ﻟَﻜُﻢ ﻣِّﻦَ ﺍﻟﻨِّﺴَﺎﺀ ﻣَﺜْﻨَﻰ ﻭَﺛُﻼَﺙَ ﻭَﺭُﺑَﺎﻉَ
ﭘﺲ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺩﻭ ﯾﺎ ﺗﯿﻦ ﯾﺎ ﭼﺎﺭ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ
ﺁﯾﺖ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺯﻭﺟﮧ ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﻮﻝ ﺑﮭﻼ ﮐﺮﯾﮑﺪﻡ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﺑﯿﭩﮭﯽ
ﺟﯿﺴﮯ ﮐﮭﺒﯽ ﮐﭽﮫ ﮨﻮﺍ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ۔۔۔۔
ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻓﻮﺯﯼ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻋﺮﺏ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﺊ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﺩﻡ ﮬﻮ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ ،، ﮬﻤﺎﺭﮮ ﻭﺍﻟﯿﺎﮞ ﺗﻮ ﺁﻣﯿﻦ ﺁﻣﯿﻦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﯿﮟ ،،،

شیطان نے کوئی زنا کیا تھا؟
کوئی قتل کیا تھا؟
شراب پی تھی؟
جواء کھیلا تھا؟
کیا کیا تھا اس نے؟
کوئی شرک کیا تھا اس نے؟
اس نے ایک سجدے کا انکار کیا تھا صرف ایک سجدے کا انکار۔
اس نے صرف ایک سجدے کا انکار کیا اور ہمیشہ کے لیے مردود ہو گیا۔اور مسلمان کو ہوش نہیں جو دن میں پانچ نمازوں میں آنے والے بیسوں سجدوں کا انکار کرتا ہے اور پھر بھی بے فکر ہے یہ سوچتا ہے کہ وہ مردود نہیں ہوا۔۔
کتنے سکون سے سوتا ہے،چائے پیتا ہے کھانا کھاتا ہے ۔۔کھیلتا ہے کودتا ہے ہرکام کرتا ہے۔
لیکن صرف ساتویں دن جمعے والے دن ٹوپی رکھ کر مسجد میں آ جاتا ہے
جیسے نماز صرف جمعے کی فرض ہے؟
کیا اللہ صرف جمعے کو کھلاتا ہے؟
کیا اللہ صرف جمعے کو بلاتا ہے؟
کیا اللہ صرف جمعے کو نعمتیں اتارتا ہے؟
کیسے پتھر دل ہیں ہم لوگ۔۔۔۔مالک بلا رہا ہےاور کان پر جوں نہیں رینگتی
کیسے بےوقوف ہیں ہم لوگ۔۔۔سارا دن کامیابی کی تلاش میں رہتے ہیں اور اللہ کامیابی کی ندا دیتا ہے۔
حی علی الفلاح۔۔۔آو کامیابی کی طرف۔۔۔لیکن کوئی پرواہ نہیں ۔۔کان تک نہیں دھرتے ۔
ہم تو اس حد تک بے حس ہو چکے ہیں موبائل کھو جائے دکھ ہوتا ہے۔ میچ ہار جائیں دکھ ہوتا ہے۔۔۔۔ لیکن نماز چھوٹ جائے تو کوئی دکھ ہی نہیں ۔
بس اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک ہم سب کو پانچ وقت کا نمازی بنائے۔ آمین

انتخاب

شهد اور دار چيني كے فوايد 
س امر کامشاہدہ کیا گیا ہے کہ شہد اور دارچینی (پوڈر) بہت سی بیماریوں کے لیے اکثیر کا درجہ رکھتے ہیں ۔ شہد دنیا کے تقریبا ہر ملک میں پیدا ہوتا ہے ۔موجودہ زمانے کے سائنس دان (ڈاکٹرز) بھی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ شہد بہت سی بیماریوں کا شافی علاج ہے ۔ شہد کو کسی بھی بیماری میں بغیر کسی نقصان ( Side Effect)کے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ آج کے دور کے ماہرین طب(ڈاکٹرز) اس بات پہ متفق ہیں کہ شہد اگرچہ اپنے اندر مٹھاس رکھتا ہے ۔ لیکن اگر اسے بطور دوا مناسب مقدار میں استعمال کیا جائے تو یہ شوگر(Diabetics)کے لیے بھی فائدہ مند ہے ۔ کینڈا میں چھپنے والے ایک رسالہ ہفت روزہ ورڈنیوز (World News) کے شمارہ 17جنوری1995ء میں شہد اور دار چینی کے استعمال سے ڈاکٹروں کے تجربات کی روشنی میں مندرجہ ذیل بیماریوں میں استعمال سے کامیاب علاج ممکن رہا ۔ 
(Heart Diseases)
۔ دل کی بیماریاں
طریقہ استعمال : 
شہد اور دارچینی کا آمیزہ بنا لیں اس آمیزے کو جام یا جیلی کی جگہ سلائس پر لگا لیں اور اسے ناشتہ میں بلا ناغہ استعمال کریں ۔ اس کا استعمال شریانوں سے کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرتا ہے اور مریض کو دل کے دورے سے محفوظ رکھتا ہے ۔ 
وہ اشخاص بھی جنہیں دل کا دورہ ہوچکا ہو اگر وہ متواتر استعمال کریں تو دوسرے اٹیک سے کوسوں دور یعنی محفوظ رہیں گے ۔ اس آمیزے کا لگا تار استعمال ، سانس کی تنگی دور کرتا ہے اور دل کی دھڑکن کو تقویت دیتا ہے ۔
امریکہ اور کینڈا میں مختلف ہسپتالوں میں لوگوں کا کامیاب علاج کیا گیا ہے اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ جوں جوں عمر بڑھتی ہے شریانیں اور دل کی نالیاں سخت ہوتی جاتی ہیں اور ان میں تنگی پیدا ہونے لگتی ہے ۔ درج بالا نسخہ سے یہ تکالیف بھی دور ہو جاتی ہیں۔ 
(Arthritis) 
۔ ہڈیوں کا بھر بھرا پن اور دوسری تکالیف
اتھرائیٹس کے مریض روزانہ دو دوفعہ (صبح و شام ) شہد او ر دارچینی کا استعمال کر سکتے ہیں ۔ 
طریقہ استعمال : 
ایک کپ گرم پانی لیں اور اس میں دو چمچ شہد اور چھوٹا چائے کا چمچ دارچینی پوڈر حل کر لیں ۔ اگر اس کا لگا تار استعمال جاری رکھا جائے تو پرانے سے پرانے مریض بھی شفا یاب ہو جاتے ہیں ۔ 
کوپن ھیگن یونیورسٹی میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈاکٹروں نے صرف ایک چمچ شہد اور آدھے چائے کے چمچ کے برابر دار چینی ایک کپ نیم گرم پانی میں ناشتہ سے پہلے استعما ل کروائی تو ہفتہ کے اندر اندر 200 مریضوں میں سے 73 مریض درد سے مکمل آرام پاگئے اور ایک مہینے کے اندر اندر سارے ہی مریض شفا یاب ہوگئے اور جو اشخاص چلنے پھرنے سے قاصر تھے وہ بھی بغیر تکلیف کے چلنے پھرنے لگے ۔ 
(Bladder Infection) 
۔مثانہ کا انفیکشن
د و کھانے کے چمچے دار چینی پوڈر اورا یک چائے کے چمچ کے برابر شہد کو نیم گرم پانی میں حل کر کے پی لیں ۔ یہ مثانے میں موجود مضر جراثیم کو تلف کر دیتا ہے ۔ 
(Toothache) 
۔دانت درد
ایک چائے کے چمچ برابر دار چینی پوڈر کو پانچ چائے کے چمچ برابر شہد میں ملا کر پیسٹ بنا لیں اور اس پیسٹ کو دکھنے والے دانت یا دانتوں پراس وقت تک ملتے رہیں ۔ جب تک درد کا آرام نہ آجائے۔ یہ پیسٹ دن میں تین بار تک استعمال کیا سکتا ہے ۔
(Cholesterol) 
کولیسڑول
کولیسٹرول کے لیے دو کھانے کے چمچ شہد اور تین چائے کے چمچ دار چینی کے لے کر 16 اونس قہوہ (چائے) میں حل کریں اور محلول جب ہائی کولیسٹرول کے مریض کو پلا یا گیا تو دو گھنٹے کے اندر اندر اس کا بلڈ کولیسڑول دس فی صد تک کم ہوگیا ۔ اگر یہ نسخہ دن میں تین بار استعمال کریں تو پرانا اورخطر ناک حدتک بڑھا ہوا کولیسڑول بھی نارمل ہو جاتا ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر روزمرہ خوراک کے ساتھ شہد استعمال کیا جائے تو کولیسٹرول کا پرابلم پیدا ہی نہیں ہوتا۔
(Cold) 
۔ نزلہ ، زکام
جن لوگوں کوعام یا شدید قسم کا نزلہ ، زکام ہو وہ کھانے کے ایک چمچ برابر نیم گرم شہد میں چوتھائی (1/4) چمچ دار چینی کا پوڈر ڈال کر دن میں تین بار استعمال کریں ۔ اس کے استعمال سے پرانی ، کھانسی اور نزلہ ، زکام کے علاوہ ناک کی بندش وغیرہ ( Sinuses) بھی دور ہوجاتی ہے ۔
(Upset Stomach) 
۔ معدہ کی خرابی
شہد اور دار چینی کا استعمال معدے کے درد اور السر وغیرہ کو جڑ سے ختم کر دیتا ہے ۔
(Gas) 
۔ گیس
انڈیا اور جاپان میں کئے گئے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ اگر شہد او ردار چینی پوڈر استعمال میں لایا جائے تو معدے کی گیسز فوری طور پر خارج ہو جاتی ہیں۔
(Immune System) 
۔ مدافعتی نظام
شہد اور دار چینی کا روزانہ استعمال مدافعتی نظام کو طاقت ور بنا دیتا ہے ۔ انسان بیکٹیریا اور وائر ل انفیکشن سے محفوظ رہتا ہے ۔ سائنسدانوں نے معلوم کیا کہ شہد میں مختلف وٹامن اور آئرن (لوہا) ایک بڑی تعداد میں موجود ہے اور اس کا لگا تار استعمال خون کے سفیدذرات کو تقویت دے کر بیکٹیریا اور وائرل انفیکشن کے حملہ سے محفوظ رکھتا ہے ۔
(Indigestion) 
۔ بدہضمی
کھانے کے دو چمچ شہد پر دارچینی پوڈر چھڑک کر کھانے سے پہلے استعمال کرنے سے معدے کی تیزابیت ، بد ہضمی اور پیٹ کے بھاری پن سے نجات ملتی ہے اور ہر قسم کا کھانا ہضم ہو جاتا ہے ۔
(Influenza) 
۔انفلوئنزا 
سپین کے ایک سائنسدان نے ثابت کیا کہ شہد میں ایسی تاثیر ہے جو انفلوئنزا کے جراثیم کو ہلاک کرتی ہے اورانسان فلو سے محفوظ رہتا ہے ۔ 
(Logevity) 
۔دیر پا ، خوش و خرم زندگی
شہد اور دار چینی سے بنائی گئی چائے اگر لگاتار استعمال کی جائے تو اس سے بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ 
o چار چمچ شہد لیں o ایک چمچ دار چینی کا پوڈر oاور تین کپ پانی تینوں کو ابال لیں کہ چائے کی شکل بن جائے ۔ ایک چوتھائی کپ یہ چائے دن میں تین بار استعمال کریں اس سے آپ کی جلدتروتازہ رہے گی اور بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات ظاہر نہیں ہوں گے ۔ اس سے زندگی کا دورانیہ بھی بڑھنے کی امید ہے اور یہ اتنی طاقتور ہے کہ اس سے سو سال کا بوڑھا بھی بیس سالہ نوجوان کی طرح چاک وچوبند ہو جائے گا۔
(Weight Loss) 
۔وزن کم کرنے کے لئے
روزانہ ناشتہ سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے اور رات کو سونے سے پہلے شہد اور دار چینی پوڈر کا ایک کپ ابلے ہوئے پانی میں استعمال کریں ۔ اس کے لگاتار استعمال سے بد صورت آدمی بھی خو ش شکل ہوجا تا ہے۔ اس کا لگاتار استعمال جسم میں چربی کو اکٹھا ہونے سے روکتا ہے اگرچہ کہ کوئی شخض زیادہ کولیسٹرول والی خواراک استعمال کر رہا ہو۔ 
(Cancer) 
۔ کینسر
جاپان اورآسٹریلیا میں ہونے والی تازہ تحقیق کے مطابق معدہ کا پرانا کینسر اور ہڈیوں کا کینسر کامیابی سے کنٹرول کیا گیا ہے ۔ اس طرح کی بیماری میں مبتلا اشخاص کو روزانہ ایک چائے کا چمچ دار چینی پوڈر اور ایک کھانے کا چمچ شہد میں ملا کر دن میں تین دفعہ ایک ماہ تک لگا تار استعمال کرنا چاہیے۔
(Fatiue) 
۔نقاہت ، کمزوری ، تھکاوٹ وغیرہ 
تاز ہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ شہد کا میٹھا نقصان کی بجائے جسم کے لئے مفید ہے خصوصا بڑی عمر کے لوگ جنہوں نے شہد اور دار چینی پوڈر ہم وزن استعمال کیا وہ زیادہ چاک و چوبند نظر آئے۔ ڈاکٹر ولیم جنہوں نے یہ تحقیق کی ہے کہتے ہیں کہ کھانے کا آدھا چمچ شہد ایک گلاس پانی میں حل کر کے اوپر دار چینی کے پوڈر کا چھڑکاؤ کر کے اگر دانت صاف کرنے کے بعد خالی پیٹ او رپھر سہ پہر 3 بجے تک استعمال کیا جائے توان اوقات میں پیدا ہونے والی مدافعاتی کمی کو کم کر کے قوت مدافعت کو ایک ہفتہ کے اندر اندر بحال کر دیتا ہے ۔



دائرہ 


جب میں چار سال کا تھا
میرے ابو سب سے اچھے ہیں

جب میں چھ سال کا تھا
لگتا ہے میرے ابو سب کچھ جانتے ہیں

جب میں دس سال کا تھا
میرے ابوبہت اچھے ہیں لیکن بس ذرا غصے کے تیز ہیں

جب میں بارہ سال کا تھا
میرے ابو تب بہت اچھے تھے جب میں چھوٹا تھا

جب میں چودہ سال کا تھا
لگتا ہے میرے ابو بہت حساس ہوگئے ہیں

جب میں سولہ سال کا تھا
میرے ابوجدید دور کے تقاضو ں سے آشنا نہیں ہیں

جب میں اٹھارہ سال کا تھا
میرے ابو میں برداشت کی کمی بڑھتی جارہی ہے

جب میں بیس سال کا تھا
میرے ابو کے ساتھ تو وقت گزارنا بہت ہی مشکل کام ہے، پتہ نہیں امی بیچاری کیسےان کے ساتھ اتنی مدت سے گزارہ کررہی ہیں

جب میں پچیس سال کا تھا
لگتا ہے میرے ابو کو ہر اس چیز پر اعتراض ہے جو میں کرتا ہوں

جب میں تیس سال کا تھا
میرے ابو کے ساتھ باہمی رضامندی بہت ہی مشکل کام ہے۔شاید دادا جان کو بھی ابو سے یہی شکایت ہوتی ہوگی جو مجھے ہے۔

جب میں چالیس سال کا تھا
ابو نے میری پرورش بہت ہی اچھے اصولوں کے ذریعے کی، مجھے بھی اپنے بچوں کی پرورش ایسی ہی کرنی چاہیے۔

جب میں پینتالیس سال کا تھا
مجھے حیرت ہے کہ ابو نے ہم سب کو کیسے اتنے اچھے طریقے سے پالا پوسا۔

جب میں پچاس سال کا تھا
میرے لیے تو بچوں کی تربیت بہت ہی مشکل کام ہے، پتہ نہیں ابو ہماری تعلیم و تربیت اور پرورش میں کتنی اذیت سے گزرے ہوں گے۔

جب میں پچپن سال کا تھا
میرے ابو بہت دانا اور دور اندیش تھے اور انہوں نے ہماری پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے بہت ہی زبردست منصوبہ بندی کی تھی۔

جب میں ساٹھ سال کا ہوا
میرے ابو سب سے اچھے ہیں

غور کیجیے کہ اس دائرے کو مکمل ہونے میں چھپن سال لگے اور بات آخر میں پھر پہلے والے قدم پرآگئی کہ میرے ابو سب سے اچھے ہیں۔

آئیے ہم اپنے والدین سے بہترین سلوک کریں، ان کے سامنے اف تک نہ کریں، ان کی خوب خدمت کریں اور ان سے بہت سا پیار کریں قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے [اللہ ہم سب کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک جو بقید حیات ہیں کو اچھی صحت اور لمبی عمر دے اور ان کا سایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے، آمین]۔ اور یہ دعا کریں کہ اے اللہ میرے والدین پراس طرح رحم فرما جیسے انہوں نے مجھ پراس وقت مہربانی کی جب میں کمسن تھا۔

سعودی عرب میں بسلسلہ روزگار مقیم ایک خوددار انسان کی ڈائری

1 جنوری
آج میں نے Resign کر دیا۔ مجھ سے جونیر ایک سعودی کو منیجر بنا دیا گیا۔ یہ میری قابلیت کی توہین ہے۔ ساراکام ہم کریں اور کریڈٹ وہ لے جائیں یہ غلط ہے۔ جس قوم میں ترقی کی بنیاد بجائے تعلیمی قابلیت کے نیشنالٹی یا واسطہ یا کوئی اور چیز دیکھی جائے وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔

5 جنوری
آج شیخ صاحب نے خود بُلا کر سمجھانے کی کوشش کی اور تنخواہ دس ہزار ریال کر دینے کا وعدہ کیا لیکن میں اپنی خود داری اور وقار کو ریالوں کے عوض بیچنا نہیں چاہتا۔

10جنوری
میں نے واپسی کی سیٹ بُک کروا لی۔ انشاء اللہ جاتے ہی کاروبار شروع کر دوں گا۔ الحمدللہ پورے 25 لاکھ روپئے میرے پاس ہوں گے جو کہ کوئی خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتا کہ اتنے بڑے سرمائے سے وہ کوئی کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ میرے دونوں سالے ساجد اور حمید بزنس میں تجربہ کار ہیں دونوں کی مدد سے انشاء اللہ ایک انڈسٹری یا فیکٹری کا آغاز کروں گا۔ میرے اپنے بڑے بھائی احمد اور نوید بھی دوبئی اور امریکہ میں ہیں وہ بھی مدد کرنے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

2 فبروری
آج وطن لوٹا ہوں۔ اِس سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آدمی اپنے وطن میں کمائے کھائے اور اپنوں کے درمیان رہے۔ جو محنت لوگ باہر کرتے ہیں اگر یہی اپنے وطن میں رہ کر کریں تو نہ صرف کفیلوں کی غلامی سے آزاد ہو سکتے ہیں بلکہ ملک بھی ترقی کر سکتا ہے۔

15 فبروری
ساجد کے مشورے پر میں نے اس کے ساتھ دس لاکھ لگا دئیے۔ اُس نے ایک ایسے علاقے میں پلاٹ خریدا جو ایک سال میں ہی پچیس لاکھ دے جائے گا۔

25 فبروری
حمید کنسٹرکشن کے کام میں برسوں سے لگا ہوا ہے میں نے اُس کے کہنے پر پانچ لاکھ اُس کے ساتھ لگا دئیے۔ ایک سال میں دس لاکھ تک وصول ہو جائیں گے۔

2 مارچ
باہر رہ کر اِتنے سال capriceچلائی اب مسلسل اِسکوٹر چلانا عجیب لگ رہا ہے۔ اِس سے image بھی خراب ہو رہا ہے کیونکہ سبھی دوستوں کے پاس کاریں ہیں اِسلئے حمید نے اپنے ایک دوست سے دو لاکھ میں ایک پُرانی corollaکی ڈیل کروا دی۔

15 مارچ
زرینہ کی ہمیشہ سے شکایت رہتی تھی کہ ہماری شادی کے بعد سے آج تک ہم نے کوئی دعوت نہیں کی ہمیشہ دوسروں کی دعوتوں میں جا کر کھا کر آتے ہیں ہمارا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ ہم بھی کبھی دوسروں کو بُلائیں۔ اسلئے ہم نے ببلو کی بسم اللہ کر ڈالی۔ ہال کا کرایہ کھانا اسٹیج اور ویڈیو وغیرہ کے مِلا کر کُل ایک لاکھ خرچ ہوئے

20 اپریل
آج ابّا جان نے بُلا کر کہا کہ شہانہ کے لیے ایک اچّھا رشتہ آیا ہے آجکل لڑکوں کے rates بہت زیادہ ہیں لوگ جہیز وغیرہ کا راست مطالبہ نہیں کرتے صرف یہ کہتے ہیں کہ اپنی خوشی سے جو چاہے دے دیجئے یہ ایک مکّاری ہے وہ رشتہ بھیجتے ہی ایسی جگہ ہیں جہاں سے انہیں بغیر مطالبے کے ہی بہت کچھ مل سکتا ہو۔

5 جون
ببلو کو رائل پبلک اسکول میں اڈمیشن کا ایک ذریعہ ملا ہے لیکن پچاس ہزار ڈونیشن کے علاوہ پچیس ہزار تک پرنسپل سمیت درمیان کے لوگوں کو کھلانا ہے۔ بینک میں پیسے ختم ہو چکے ہیں

20 جون
ساجد کو میں نے جو بھی قیمت آئے پلاٹ بیچنے کے لیے کہا لیکن جواب ملا کہ اُس پر جہانگیر پہلوان کے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے اُلٹا ساجد مجھ سے ہی پولیس کاروائی کے لیے کم از کم ایک لاکھ مانگ رہا ہے ورنہ کیس دو تین سال کھینچ سکتا ہے

25 جون
حمید سے پیسوں کا انتظام کرنے کہا لیکن وہ کہہ رہا ہے کہ بلدیہ والوں نے Illegal construction کا پرچہ پھاڑ دیا ہے کم از کم ایک آدھ لاکھ کھِلانا  پڑے گا ورنہ کوئی گاہک پلاٹ خریدنے نہیں آئے گا اور تعمیر کا کام ایسے ہی رُکا رہے گا۔ بلکہ اسٹیل اور سمنٹ کے بڑھتے ہوئے داموں کی وجہ سے خرچ اور بڑھ جائے گا۔

10 جولائی
ابّا جان کو دل کا دورہ پڑا۔ فوری دوا خانے میں شریک کروانا پڑا ڈاکٹر اِس دور کے سب سے بڑے ڈاکو ہیں
فوری ایک لاکھ روپیئے جمع کروانے کے لیے کہا۔

25 جولائی
آج بینک سے چھ ہزار ماہانہ شرحِ سود پر ایک لاکھ کا لون لینا پڑا

14 اگسٹ
احمد بھائی نے کہا کہ بھابھی کے آپریشن اور زچگی کی وجہ سے وہ مقروض ہیں اور دوبئی میں مکانوں کے کرائے اندھا دھند بڑھا دئیے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ سخت پریشان ہیں واپس آنے کی سوچ رہے ہیں

25 اگسٹ
نوید بھائی نے کہا کہ انہوں نے امریکہ میں کریڈٹ پر پٹرول پمپ خریدا ہے مالی حالت خراب ہے

20 سپٹمبر
بینک کے قرضے کی قسط ادا کرنی ہے سوچا تھا زرینہ کا کچھ زیور بیچ دوں گا یوں بھی یہ عورتیں مردوں کی کمائی کو لاکرز میں سڑاتی ہیں۔ لیکن زرینہ کا زیور اُنکی امی جان کے لاکر میں ہے اور وہ اپنے بیٹے کے پاس امریکہ گئی ہوئی ہیں۔

3 اکتوبر
کار فروخت کر دی۔ یہاں کی ٹرافک میں کار یوں بھی ایک حماقت ہے آدمی اسکوٹر پر کہیں زیادہ آرام سے پہنچ جاتا ہے۔ فضول کی شان میں پٹرول کا اصراف صحیح نہیں ہے۔

25 اکتوبر
انڈسٹریل لون کے لیے درمیان کے لوگ اور بینک منیجر ایک لاکھ رشوت مانگ رہے ہیں ادا کرنے پر مکان کے کاغذات رہن رکھ کر پچیس لاکھ دیں گے اور تین سال میں پینتس لاکھ وصول کریں گے پتہ نہیں اِس ملک میں لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں محنت اور ایمانداری سے جینا ناممکن ہے۔

1 نومبر
آج شیخ صاحب سے ویزا کے لیے بات کی انہوں نے ایک مہینے بعد فون کرنے کہا

1 دسمبر
آج پھر شیخ صاحب سے بات کی اُنہوں نے تین ہزار ریال ماہانہ کا آفر دیا۔ میں نے ہاں کہہ دیا۔ عزّت کے ساتھ یہ بھی مِل جائیں تو بڑی نعمت ہے ورنہ اپنے ملک میں آدمی دن رات محنت کر کے دنیا بھر کے جھوٹ اور چکمے بازیاں کر کے بھی اتنا نہیں کما سکتا جب کہ وہاں کم از کم جھوٹ دھوکہ چکمہ یہ سب تو نہیں کرنا پڑتا

15 دسمبر
الحمدللہ آج ویزا آ گیا۔ انشاء اللہ ہفتے دو ہفتے میں اس دوزخ سے نجات مِل جائے گی

31 دسمبر
آج دوبارہ سعودی عرب پہنچ گیا الحمدللہ۔ ایک ڈراؤنا خواب تھا جو ختم ہوا۔ اب سوچ لیا ہے کہ جب تک پورے ایک کروڑ روپئے جمع نہیں ہوتے ہرگز واپس نہیں جاؤں گا۔
٭٭٭
عرصہ ہوا علیم خان فلکی ، ہندوستانی مزاح نگار اور شاعر کی یہ تحریر میری زنبیل میں پڑی تھی ، سوچا آج آپ سب کی تفریح طبع اور سامانِ عبرت کے لیے شئیر کر ہی دوں 
طالبِ دعا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موت کا فرشتہ 

شام کے وقت ڈرائیور ایک خالی وین دوڑائے چلا جا رھا تھا۔ اچانک گاڑی کے ٹائر چرچرائے اور گاڑی آھستہ ھوتے ھوئے سڑک کے ایک طرف کھڑی ھو چکی تھی... نہایت صاف شفاف اور سفید رنگ کا سوٹ پہنے ایک باریش بابا جی آگے بڑھے اور وین کا دروازہ کھول کر ڈرائیور سے پچھلی سیٹ پر آبیٹھے...
“کہاں جانا ھے آپ کو بابا جی؟“ ڈرائیور نے گاڑی دوڑاتے ھوئے سوال کیا۔
“مجھے کہیں نہیں جانا ھے... صرف آپ کے پاس بھیجا گیا ھے مجھے.... میں موت کا فرشتا ھوں...“
“ہاہاہا... خوب مذاق کرتے ھیں آپ بھی بابا جی۔“ ڈرائیور نے قہقہہ لگایا...
تھوڑی دیر بعد ڈرائیور کو سڑک کے کنارے دو عورتیں کھڑی نظر آئیں۔ ایک نے وین کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ وہ خوش تھا کہ چلو گھر جاتے ھوئے کچھ پیسے بن جائیں گے... اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو عورتیں بابا جی سے پچھلی سیٹ پر جا بیٹھیں...
باجی! کہاں جانا ھے آپ کو؟“ ڈرائیور نے سٹیرنگ سنبھالتے ھوئے کہا۔۔
“ہمیں حیات نگر جانا ھے“ ایک عورت نے جواب دیا...
ٹھیک ھے باجی... اور بابا جی اب آپ بھی بتا ھی دیں کہ آپ کو کہاں جانا ھے“ ڈرائیور نے گاڑی چلاتے ہوئے کہا..
“میں آپ کو بتا تو چکا ھوں کہ میں موت کا فرشتہ ھوں... عزرائیل... اور یہ کہ تمھاری موت گاڑی میں لکھی ھوئی ھے... مجھے اور کہیں نھیں جانا۔“
“ہاہاہاہا... ویگن میں ایک بار پھر قہقہہ بلند ھوا... “سنو سنو باجی! یہ بابا جی کہتے ھیں کہ میں موت کا فرشتہ ھوں... ہاہاہا...“ ڈرائیور نے خواتین کو مخاطب کر کے قہقہہ لگایا اور گاڑی مزید تیز کردی۔
“موت کا فرشتہ؟ بابا جی؟ کون بابا؟ کون موت کا فرشتہ؟ یہاں تو کوئی بھی نھیں ھے۔۔۔“ عورتوں نے حیرت سے جواب دیا۔۔
“ آپ دیکھو تو سہی... میرے پیچھے جو سفید کپڑے پہنے بابا جی بیٹھے ھیں... آپ سے اگلی سیٹ پر“ ڈرائیور نے دھیان سے گاڑی چلاتے ھوئے کہا...
“ نہیں تو ادھر تو کوئی بابا جی نہیں ہے..... آپ مذاق کر رہے ھیں...“ عورتوں نے کہا تو ڈرائیور کا رنگ فق ھو گیا
اس نے گاڑی روک دی... اب جو چپکے سے پیچھے دیکھا تو بزرگ کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رھی تھی... جب کہ دونوں عورتیں بےنیاز ھو کر اپنی باتوں میں مگن تھیں... ڈرائیور خوفزدہ ھو گیا اور ڈر کے مارے کانپنے لگا...
“تیری موت اسی گاڑی میں لکھی ھوئی تھی... اب وقت آن پہنچا ہے...“
موت کے فرشتے نے سرد لہجے میں کہا اور ڈرائیور کی طرف اپنا بھاری بھرکم ھاتھ بڑھا دیا... گاڑی میں ایک زوردار چیخ بلند ھوئی... ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا قریبی کھیتوں میں جاتی ھوئی پگڈنڈی پر دوڑ لگادی...
دوڑتے ھوئے اچانک اس نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو موت کا جعلی فرشتہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا گاڑی بھگا کے لے جا رھا تھا، جب کہ پیچھے بیٹھی خواتین کے قہقہے بلند ھو رہے تھے... اور ساتھ ھی وکٹری کی علامت بنائی جارھی تھی... ڈرائیور اب موت کے فرشتے کی ساری حقیقت سمجھ چکا تھا.... بےچارا سڑک کے کنارے خالی ھاتھ مل رھا تھا...
(تو جناب! اس طرح بھی لوٹنے کی واردات ھو سکتی ھے... دھیان رکھیے گا.😁😁

قہقہ نہیں مسکراہٹ 
عقلمند ,حاضر دماغ بڑھیا
***********************
ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﺭ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ۔ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ ﺗﻮ ﻣﺴﮩﺮﯼ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﮭﭧ ﭘﭧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍٓﻧﮑﮫ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﭼﻮﺭ ﻧﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﯿﭩﮯ ﻟﯿﭩﮯ ﺑﻮﻟﯽ ’’ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﻢ ﺷﮑﻞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﮔﮭﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﻮ، ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ۔ ﭼﻠﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﻟﻤﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﺠﻮﺭﯼ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﺎﻝ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ۔ ﻣﮕﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﻮ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺫﺭﺍ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺗﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﻭ
ﭼﻮﺭ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺪﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﻔﻘﺖ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺳﻨﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ’’ ﺑﯿﭩﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﻮﮞ ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﻞ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ 3 ﺩﻓﻌﮧ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ ﻣﺎﺟﺪ ۔ ۔ ﻣﺎﺟﺪ ۔ ۔ ﻣﺎﺟﺪ !!! ﺑﺲ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﺫﺭﺍ ﺑﺘﺎﻭٔ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮨﻮﺋﯽ؟ ‘‘
ﭼﻮﺭ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﺎ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺑﯿﭩﺎ ﻣﺎﺟﺪ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﭨﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺁﮐﺮ ﭼﻮﺭ ﮐﯽ ﺧﻮﺏ ﭨﮭﮑﺎﺋﯽ ﻟﮕﺎﺋﯽ۔ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺑﻮﻟﯽ ’’ ﺑﺲ ﮐﺮﻭ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﯿﮯ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﺑﮭﮕﺖ ﭼﮑﺎ۔ ‘‘ ﭼﻮﺭ ﺑﻮﻻ ’’ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﺭ ﮨﻮﮞ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ...

ایک صاحب انتہائی پریشان حالت میں اپنی گم شدہ بیوی کی رپورٹ درج کروانے پولیس سٹیشن پہنچے 
پولیس آفیسر: آپ کی بیگم کب سے غائب ہیں ؟
شوہر: کنفرم نہیں لیکن میرا خیال ہے کل شام یا دوپہر سے باہر نکلی تھی 
آفیسر: محترمہ کا قد کتنا ہے ؟
شوہر: کنفرم نہیں ۔ کبھی ناپا نہیں
آفیسر: بالوں کا رنگ ؟
شوہر: گاہے بگاہے ہیرکلر تبدیل کرتی رہتی ہے
آفیسر: عمر کتنی ہے؟
شوہر: کنفرم نہیں۔ آفیشل ڈاکومنٹ میں 35 ہے۔ ویسے 25 بتاتی ہے
آفیسر: آپکی بیگم جب گئی تو اس نے کونسا لباس پہنا تھا؟
شوہر: کنفرم نہیں۔ سوٹ پہنا ہوا تھا لیکن اوپر جیکٹ پہنی ہوئی تھی 
آفیسر: جیکٹ کونسے کلر کی تھی ؟
شوہر: ڈبل سائیڈڈ جیکٹ تھی ۔ پتہ نہیں بلیک یا پنک سائیڈ تھی
آفیسر: اچھا آپ کی بیگم گھر سے کیسے گئی؟
شوہر: میری ذاتی کار میں۔
آفیسر:کونسی کار تھی ؟
شوہر: (ٹھنڈی آہ بھر کر )۔۔مرسٹیڈیز بینز ماڈل 2013 لیٹ ایڈیشن، 5 سیریز، بلیک کلر، سپر چارج، 8والوز، 429 ہارس پاور انجن، ٹربوپاور، فور ویلزڈرائیو، آٹو میٹک جمع مینول فنکشن، لیدر سیٹنگ، LEDمانیٹر، معہ ہائی فائی ساؤنڈ سسٹم، (شوہر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔ مزید بولا ۔۔) ایلومینم باڈی اے کلاس وینڈشیلڈسکرین، میجک سکائی روف سسٹم ۔۔ اور ۔۔۔ 
آفیسر : اوکے سر ۔۔ تسلی رکھیں۔ ہم بہت جلد آپ کی کار کا سراغ لگا لیں گے۔
................................
حسنین رضا 😉

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیز کو آدھی سلطنت دینے کو کہا ، لیکن ساتھ میں کچھ شرائط بھی عائد کیں- وزیر نے لالچ میں آکر شرائط جاننے کی درخواست کی بادشاہ نے شرائط 3 سوالوں کی صورت میں بتائیں۔
سوال نمبر 1: دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟
سوال نمبر 2 : دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟
سوال نمبر 3 : دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟
بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ ان تین سوالوں کے جواب ایک ہفتہ کے اندر اندر بتائے بصورت دیگر سزائے موت سنائی جائے گی۔ وزیر نے سب پہلے دنیا کی بڑی سچائی جاننے کے لئے ملک کے تمام دانشوروں کو جمع کیا اور ان سے سوالات کے جواب مانگے ۔انہوں نے اپنی اپنی نیکیاں گنوائیں۔ لیکن کسی کی نیکی بڑی اور کسی کی چھوٹی نکلی لیکن سب سے بڑی سچائی کا پتہ نہ چل سکا۔ اس کے بعد وزیر نے دنیا کا سب سے بڑا دھوکا جاننے کے لئے کہا تو تمام دانشور اپنے دیئے ہوئے فریب کا تذکرہ کرتے ہوئے سوچنے لگے کہ کس نے کس کو سب سے بڑا دھوکا دیا لیکن وزیر اس سے بھی مطمئن نہیں ہوا اور سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر وہاں سے فرار ہوگیا ۔چلتے چلتے رات ہوگئی ،اسی دوران اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا، وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کے جواب کچھ یوں دیئے
دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے ۔
دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔
تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کےجواب بتادوں تو مجھے کیا ملے گا ،سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔ یہ سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے ہی اصطبل کا نگران بنانے کی بھی پیشکش کی۔ کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا ۔وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤگے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے بندے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤگے۔ یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے لینے سے بھی انکار کر دیا ۔اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا۔ کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لوتو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتادوں گا۔ یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔ وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا تو کسان نے کہا کہ
دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے- جس کے لئے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے

افلاطون اپنے اُستاد سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا۔‘‘

سقراط نے مسکرا کر پوچھا ’’وہ کیا کہہ رہا تھا۔‘‘ 

افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا ’’آپ کے بارے میں برے الفاظ کہہ رہا تھا…‘‘
سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا "تم کوئی بات سنانے سے پہلے اسے تین کسوٹیوں پر رکھو، اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کہ کیا یہ بات بتانی چاہیے۔ وہ تین کسوٹیاں یہ ہیں 

* کیا تمھیں یقین ہے کہ یہ بات سو فیصد سچ ہے
* کیا تمھیں یقین ہے کہ یہ اچھی بات ہے
* کیا تمھیں یقین ہے کہ یہ میرے لیے فائدہ مند ہے

اگر تمہاری خبر ان تینوں پر پورا اترتی ہے تو بتا دو ورنہ خاموشی اس بات سے بہتر ہے" 

سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے چوبیس سو سال قبل وضع کردیے تھے، سقراط کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ گفتگو سے قبل بات کو تین کسوٹیوں پر پرکھتے تھے، کیا یہ بات سو فیصد درست ہے، کیا یہ بات اچھی ہے اور کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے، اگر وہ بات تینوں کسوٹیوں پر پوری اترتی تھی،تو وہ بے دھڑک بات کردیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا،تو وہ خاموش ہوجاتے تھے۔

(اک پرانی یاداشت)
#راہگزر

شاہ صاحب سے ایک مرید نے پوچھا کہ اگر ھمارے حکمران کرپٹ ہیں تو عوام ان کو بار بار منتخب کیوں کرتے ہیں؟؟
شاہ صاحب مسکرا کر کہنے لگے کہ ایک جگہ نماز کھڑی تھی ایک راہگیر بھی نماز میں شامل ھوا۔۔ اچانک اس کی نظر امام کے کپڑوں پر گئ کہ وہ گندے تھے۔۔ نماز کے بعد ساتھ بیھٹے شخص سے پوچھا کہ ایسے شخص کو کیوں آگے کرتے ھو جنکے کپڑے بھی ناپاک ھوتے ہیں؟
شخص نے بتایا کہ کپڑے اس کے تب خراب ھوتے ہیں جب یہ شراب پی جاتا ھے۔۔
راہگیر حیران ھوکر ۔۔ شراب بھی پیتا ھے پھر بھی اسے نماز کے لیے آگے کرتے ھو؟
شخص ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔ یہ جب  جوا۶ ہارتا ھے تو تب شراب پیتا ھے۔۔
راہگیر؛- شراب پیتا ھے ، جوا۶ کھیلتا ھے پھر بھی اس کے پیچھے نماز پڑھتے ھو؟؟؟؟
شخص:- کیا کریں ۔۔۔ پیھچےکھڑا کرتے ہیں تو تمام نمازیوں کے جوتے چرا لیتا ھے۔۔ اس لئے مجبوری ھے کہ اس کو آگے ہی کھڑا کر لیں۔۔۔۔!!!!!!

واہ رے انسانی فطرت ....

یہ مندر-درگاہ بھی کیا عجیب جگہ ہے
جہاں غریب باہر اور امیر اندر 'بھیک' مانگتا ہے ..
 

بارات میں دولہے پیچھے اور دنیا آگے چلتی ہے جبکہ میت میں جنازہ آگے اور دنیا پیچھے چلتی ہے ..

یعنی دنیا خوشی میں آگے اور غم میں پیچھے ہو جاتی ہے ..!


موم بتی جلا کر مُردوں کو یاد کرنا
اور موم بتی بجھا کر سالگرہ منانا ..!

عمر بھر اٹھایا بوجھ ایک کیل نے ...
اور لوگ تعریف تصویر کی کرتے رہے ..

پازیب ہزاروں روپے میں آتی ہے، پر پیروں میں پہنی جاتی ہے

اور .....

بندیا 1 روپے میں آتی ہے مگر پیشانی پر سجائی جاتی ہے

اس لئے قیمت معنی نہیں رکھتی قسمت معنی رکھتی ہے. 

ایک دریچہ میں رکھے گیتا اور قرآن آپس میں کبھی نہیں لڑتے،

اور

جو ان کے لئے لڑتے ہیں وہ کبھی انھیں نہیں پڑھتے ....

نیم کی طرح کڑوا علم دینے والا ہی سچا دوست ہوتا ہے،

میٹھی بات کرنے والے تو چاپلوس بھی ہوتے ہیں.

تاریخ گواہ ہے کہ آج تک نیم میں کبھی کیڑے نہیں پڑے.

اور مٹھائی میں تو اکثر کیڑے پڑ جایا کرتے ہیں ...

اچھے راستے پر کم لوگ چلتے ہیں لیکن برے راستے پر اکثریت چلتی ہے ......

اسی لیے شراب بیچنے والا کہیں نہیں جاتا،

پر دودھ بیچنے والے کو گھر گھر اور گلی کوچے بھٹکنا پڑتا ہے.

دودھ والے سے بار بار پوچھا جاتا ہے کہ دودھ میں پانی تو نہیں ڈالا؟

جبکہ شراب میں خود ہاتھوں سے پانی ملا ملا کر پیتے ہے.

واہ رے انسانی فطرت ....

 Its reialty of truth which is we face in all life every were in this worlads    

*🌴حکمت کی بات🌴*


ایک عورت گاؤں کے دانا شخص کو روایتی والا عامل سمجھتی تھی جو گنڈے اور تعویذ کا کام کرتا ہے۔ اس لیئے جاتے ہی اس نے فرمائش کر ڈالی کہ مجھے ایسا عمل کر دیجئے کہ میرا خاوند میرا مطیع بن کر رہے اور مجھے ایسی محبت دے جو دنیا میں کسی عورت نے نا پائی ہو۔ بندہ عامل ہوتا تو جھٹ سے تعویذ لکھتا اور اپنے پیسے کھرے کرتا، وہ جانتا تھا کہ خاتون اسے کچھ اور ہی سمجھ کر اپنی مراد پانے کیلئے آئی بیٹھی ہے۔ یہی سوچ کر دانا شخص نے کہا، محترمہ، تیری خواہش بہت بڑی ہے لہٰذہ اس کے عمل کی قیمت بھی بڑی ہوگی، کیا تم یہ قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہو؟
عورت نے کہا میں بخوشی ہر قیمت دینے کیلئے تیار ہوں۔ دانا شخص نے کہا ٹھیک ہے تم مجھے شیر کی گردن سے ایک بال خود اپنے ہاتھوں سے توڑ کر لا دو تاکہ میں اپنا عمل شروع کر سکوں۔ شیر کی گردن کا بال اور وہ بھی میں اپنے ہاتھ سے توڑ کر لا دوں؟ جناب آپ اس عمل کی قیمت روپوں میں مانگیئے تو میں ہر قیمت دینے کو تیار ہوں مگر یہ توآپ عمل نا کر کے دینے والی بات کر رہے ہیں! آپ جانتے ہی ہیں کہ شیر ایک خونخوار اور وحشی جانور ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اس کی گردن تک پہنچ کر اسکا بال حاصل کر پاؤں وہ مجھے پہلے ہی پھاڑ کھائے گا۔
دانا شخص نے کہا، بی بی، میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اس عمل کے لئے شیر کی گردن کا بال ہی لانا ہوگا اور وہ بھی تم اپنے ہاتھ سے توڑ کر لاؤ گی۔ اس عمل کو بس اسی طرح ہی کیا جا سکتا ہے۔
عورت ویسے تو مایوس ہو کر ہی وہاں سے چلی مگر پھر بھی اس نے اپنی چند ایک راز دان سہیلیوں اور مخلص احباب سے مشورہ کیا تو اکثر کی زبان سے یہی سننے کو ملا کہ کام اتنا ناممکن تو نہیں ہے کیونکہ شیر تو بس اسی وقت ہی خونخوار ہوتا ہے جب بھوکا ہو۔ شیر کو کھلا پلا کر رکھو تو اس کے شر سے بچا جا سکتا ہے۔ اس عورت نے یہ نصیحتیں اپنے پلے باندھیں اور جنگل میں جا کر آخری حد تک جانے کی ٹھان لی۔
عورت شیر کیلئے گوشت پھینک کر دور چلی جاتی اور شیر آ کر یہ گوشت کھا لیتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شیر اور اس عورت میں الفت بڑھتی چلی گئی اور فاصلے آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو گئے۔ اور آخر وہ دن آن ہی پہنچا جب شیر کو اس عورت کی محبت میں کوئی شک و شبہ نا رہا تھا۔ عورت نے گوشت ڈال کر اپنا ہاتھ شیر کے سر پر پھیرا تو شیر نے طمانیت کے ساتھ اپنی آنکھیں موند لیں۔ یہی وہ لمحہ تھا عورت نے آہستگی سے شیر کی گردن سے ایک بال توڑا اور وہاں سے بھاگتے ہوئے سیدھا دانا شخص کے پاس پہنچی۔ بال اس کے ہاتھ پر رکھتے ہی پورے جوش و خروش کے ساتھ بولی، یہ لیجیئے شیر کی گردن کا بال۔ میں نے خود اپنے ہاتھ سے توڑا ہے۔ اب عمل کرنے میں دیر نا لگائیے۔ تاکہ میں اپنے خاوند کا دل ہمیشہ کیلئے جیت کر اس سے ایسی محبت پا سکوں جو دنیا کی کسی عورت کو نا ملی ہو۔
دانا شخص نے عورت سے پوچھا، یہ بال حاصل کرنے کیلئے تم نے کیا کیا؟
عورت نے جوش و خروش کے ساتھ پوری داستان سنانا شروع کی کہ وہ کس طرح شیر کے قریب پہنچی، اس نے جان لیا تھا کہ بال حاصل کرنے کیلئے شیر کی رضا حاصل کرنا پڑے گی۔ اور یہ رضا حاصل کرنے کیلئے شیر کا دل جیتنا پڑے گا جب کہ شیر کے دل کا راستہ اس کے معدے سے ہو کر جاتا ہے۔ پس شیر کا دل جیتنے کیلئے اس نے شیر کے معدے کو باقاعدگی سے بھرنا شروع کیا۔ اس کام کے لئے ایک بہت صبر آزما انتظار کی ضرورت تھی اور آخر وہ دن آ پہنچا جب وہ شیر کا دل جیت چکی تھی اور اپنا مقصد پانا اس کیلئے بہت آسان ہو چکا تھا۔
دانا شخص نے عورت سے کہا، اے اللہ کی بندی؛ میں نہیں سمجھتا کہ تیرا خاوند اس شیر سے زیادہ وحشی ، اجڈ اور خطرناک ہے۔ تو اپنے خاوند کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیوں نہیں کرتی جیسا سلوک تو نے اس شیر کے ساتھ کیا۔ جان لے کہ مرد کے دل کا راستہ بھی اس کے معدے سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔ خاوند کے پیٹ کو بھر کر رکھ، مگر صبر کے ساتھ، ویسا صبر جیسا شیر جیسے جانور کو دوست بننے کے مرحلے تک میں کیا تھا.

As Received.
دوستو اگراپکےآس پاس یا کسی جان پہچان والےانسان یا کِسی رستےدار کو کینسر (cancer) ھو کسی بھی طرح کا تو آپ اُس مریض کے  گھر پر جائیں ! اُس مریض کے گھر والوں کو یا خود
 مریض کو سمجھائیں کے جو بھی کینسرکی( cance r)دوائیں چل رہی ھیں وہ چلنے دیں اور وہ اپنے مریض کو ششم (Tahli,Rosewood,Dalbergia)کے پیڑ کے پتوں کا جوس بھی بناکر پلانا شروع کر دیں 10 سے15دنوں تک صبح  و شام خالی پیٹ پلائیں ! اُس کے بعد ششم (Rosewood,Dalbergia,Tahli)کے پتوں کو ھر روز چبانا شروع کر دیں ! دیکھتے ھی دیکھتے کینسر (cancer) مریض میں شاندار چینجگ changing دیکھنے کوملیگی اور یہ بیماری جڑ سے ختم ہو جائے گی انشااللہ ! دوستو میری اور آپ کی تھوڑی سی کوشش کشی کے گھر (Family ) میں خوشیاں لوٹا سکتی ھے تو please یہ کام اپ اج  ھی سے  شروع کر دیں ! دکھ اپنوں کا ھو یا دوسروں کا دُکھ دکھ ھوتا ھے آپ کو کُچھ نہیں کرنا بس اِس میسج (message) کو کاپی (copy) کر کے دوسرے ھر ایک گروپس (groups) میں پوسٹ (post) کر دیں ! انشااللہ اس کا آپکو بھی بہت ثواب ملے گا
-
Dr. Muhammed Khalil (BAMS)
Malerkotla-148023 Distik Sangrur Punjab India


*اسلام علیکم*

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ " ﻟﮑﮭﺎ ﺗﻮ کسی ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ ﻟﻔﻆ "ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ" ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺑﻠﮑﮧ یه *" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ …
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻟﮓ الگ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔

ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮا-  ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻼﮞ ﺳﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ- 

ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯼ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭﮞ گا خور سے ﺗﺤﻘﯿﻖ کی تو ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﺻﺤﯿﺢ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔۔

ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ " ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ " ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ " ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ " ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ " ( ﻧﻌﻮﺫﺑﺎ ﺍﻟﻠﮧ )

ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﻮ ﻟﻔﻆ " ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-
ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ 
" ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺍﮐﯿﻼ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ ہے...

1. ﻭَﻫﻮَ ﺍﻟَّﺬِﯼ ﺃَﻧْﺸَﺄَ ﻟَﮑُﻢُ ﺍﻟﺴَّﻤْﻊَ ﻭَﺍﻟْﺄَﺑْﺼَﺎﺭَ ﻭَﺍﻟْﺄَﻓْﺌِﺪَۃَ ﻗَﻠِﯿﻠًﺎ ﻣَﺎ ﺗَﺸْﮑُﺮُﻭﻥَ – ( ﺍﻟﻤﻮﻣﻦ ) , 78

2. ﻗُﻞْ ﺳِﯿﺮُﻭﺍ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ﻓَﺎﻧْﻈُﺮُﻭﺍ ﮐَﯿْﻒَ ﺑَﺪَﺃَ ﺍﻟْﺨَﻠْﻖَ ﺛُﻢَّ ﺍﻟﻠَّﻪ ﯾُﻨْﺸِﺊُ ﺍﻟﻨَّﺸْﺄَۃَ ﺍﻟْﺂَﺧِﺮَۃَ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﮧَ ﻋَﻠَﯽ ﮐُﻞِّ ﺷَﯽْﺀ ٍ ﻗَﺪِﯾﺮ , ـ ( ﺍﻟﻌﻨﮑﺒﻮﺕ ) 20

3. ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻧْﺸَﺄْﻧَﺎﻫﻦَّ ﺇِﻧْﺸَﺎﺀ ً – ( ﺍﻟﻮﺍﻗﻌﮧ ) , 35

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﯿﮟ " ﺍﻟﻠﮧ " ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﺍﻟﮓ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔۔

ﻟﻔﻆ " ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ 
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*

" ﺍﻥ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﺍﮔﺮ "
" ﺷﺎﺀ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﭼﺎﮨﺎ "
" ﺍﻟﻠﮧ " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ " ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ "...

ﺗﻮ ﻟﻔﻆ *" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ۔۔

1. ﻭَﺇِﻧَّﺎ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻟَﻤُﮩْﺘَﺪُﻭﻥَ – ( ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ ) 70

2. ﻭَﻗَﺎﻝَ ﺍﺩْﺧُﻠُﻮﺍ ﻣِﺼْﺮَ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺁَﻣِﻨِﯿﻦَ – ( ﯾﻮﺳﻒ ) 99

3. ﻗَﺎﻝَ ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺻَﺎﺑِﺮًﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺃَﻋْﺼِﯽ ﻟَﮏَ ﺃَﻣْﺮًﺍ – ( ﺍﻟﮑﮩﻒ ) 69

4. ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﯿﻦَ – ( ﺍﻟﻘﺼﺎﺹ ) 27

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ 
*" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "*
 ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ 
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*
 ﺗﻮ ﺍسے ایسےھی ﻟﮑﮭﻨﺎ ﭘﺎﻟﮑﻞ ﺩﺭﺳﺖ ھو گا ۔۔

انگریزی میں یوں لکھ جا سکتا ھے..
*"In Sha Allah"*

صدقه جاریه کے طور پر اس معلومات کے پرچار کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی درخواست ھے..
*والسلام*



تحریر و تحقیق: ابنِ مُنیب
......................
حسنین رضا"وزن کم کرنے کے تَیرہ طریقے (بغیر ڈائیٹنگ اور بغیر ورزش کے)"

۱۔ کپڑے ڈھیلے پہنیں

۲۔ تصویر ہمیشہ دُور سے لیں اور کوشش کریں کہ پاس کوئی بڑی چیز جیسے بَس ٹرک یا بلند عمارت ہو

۳۔ وزن کرتے ہوئے ہمیشہ ایک پاوں زمین پر رکھیں (اور دوسرے سے سکیل کو دبائیں یہاں تک کہ سوئی آپ کے آج کے ہدف تک پہنچ جائے)

۴۔ دُبلے پتلے اور خوراک کا خیال رکھنے والے دوستوں سے تعلقات توڑ دیں

۵۔ خود کو یقین دلائیں کہ موٹاپے کا احساس صرف اور صرف آپ کے دماغ کی خرافات ہیں۔ روزانہ سو مرتبہ یہ وِرد کریں "آئی ایم بیوٹی فُل، آئی ایم پرفیکٹ"

۶۔ گھر کے تمام آئینے توڑ کر باہر پھینک دیں

۷۔ کھانے سے پہلے اور بعد میں خوب کھانا کھائیں تا کہ کھانے کے وقت بھوک کم لگے

۸۔ کھانا ہمیشہ بہت زیادہ بنائیں تا کہ بچے ہوئے کھانے کو دیکھ کر یہی احساس ہو کہ کم کھایا

۹- ڈاکٹر کو رشوت دے کر "مکمل صحتمندی" کا سرٹیفیکیٹ حاصل کریں

۱۰۔ اپنے کمرے میں جگہ جگہ جاپانی پہلوانوں کے پوسٹر اور تصاویر آویزاں کریں

۱۱۔ روزانہ متعدد بار ورزش سے بھاگیں۔ بقیہ اوقات میں ریلیکس کریں اور ورزش کا خیال دل میں نہ لائیں

۱۲۔ موٹاپے کی طرف توجہ دلوانے والے دوستوں کو غلط وزن بتائیں اور اُنہیں اپنی آنکھیں چیک کروانے کا مشورہ دیں

۱۳۔ کھاتے ہوئے یاد رکھیں کہ کم کھانے کی صورت میں جَلد ہی ایک شدید احساسِ محرومی آپ کو لاتعداد اشیائے خورد و نوش دیوانہ وار مُنہ میں ڈالنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ایک متوازن انسان کبھی ایسے احساسات کو قریب پھٹکنے نہیں دیتا۔ اور آپ تو ہیں ہی بیوٹی فُل، پرفیکٹ اور بیلینسڈ

تحریر و تحقیق: ابنِ مُنیب
......................
حسنین رضا